شیخ سعدی کا قول ہے کہ کم گو شخص عقل مند ہوتا ہے کیونکہ وہ خاموش رہ کر اپنے سارے عیب چھپا لیتاہے۔ لیکن میں اسے مختلف انداز میں دیکھتا ہوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ بولنا ہرفردکا بنیادی حق ہےاور سننا دوسروں کی ضرورت ۔ اگر انبیا نہ بولتے تو مذاہب نہ بنتے،اگر دانش ور خاموش رہتے تو علم کے دریا نہ بہتے، دنیا میں انقلاب نہ آتےاور دنیا ترقی نہ کرتی۔ بولنا ہی وہ پیمانہ ہے جس کے ذریعے ہم بے وقوف اور عقل مند میں تمیز کرتے ہیں ۔
جہاں تک تعلق ہے اچھابولنے کا تو اس کے لئے کسی ڈگری یا سرٹیفکیٹ کی ضرورت نہیں۔ اس کے لئے تو ضرورت ہے ایسی فضا کی جس میں اچھا بولا جاسکے، ایک ایسے ماحول کی کہ جس میں اچھا بولنا وجہِ ستائش بنے ۔اسی طرح بولنے کا تعلق اعلیٰ لفظوں یا دلائل سے نہیں بلکہ بولنے والے کے جذبات سے ہے۔ جذبات کا اظہار آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔ جذبات کا اظہار ایک طرف محبت کے پھول کھلا دیتا ہے تو دوسری طرف آگ کے دریا بہا دیتا ہے۔ اسی طرح اپنے علم کا اظہار بھی بہت نازک ہے۔ یہ جب عاقل کی زبان سے ہوتا ہے تو جاہل قومیں مہذب بن جاتی ہیں اور جاہل کی زبان سے ادا ہو تو ہنستی بستی قوموں کو برباد کر دیتا ہے۔ اس لئے اپنے جذبات کا اظہار اس طرح کرنا چاہئےکہ دوسروں کے جذبات کو نقصان نہ پہنچے اسی طرح اپنے علم کا اظہار اس طرح کرنا چاہئے کہ دوسرے بے علم ثابت نہ ہوجائیں ۔ایسے لفظوں کے تیر چلانے سے گریز کرنا چاہئے کہ جنہیں سُن کر سُننے والوں کا کلیجہ پھٹ جائے۔ چونکہ ہم اکثر بول کر اپنے جذبات اور علم کا اظہار کرتے ہیں اس لئے اچھا بولنا اور شائستگی سے بولنا بہت ضروری ہے۔ لفظ ایسے ادا ہوں جیسے پھول جھڑ رہے ہوں ۔ تلخ سے تلخ بات اس طرح کی جائے کہ سننے والے پر گراں نہ گذرے۔ کیونکہ اچھی گفتار تہذیب و شائستگی کاایک اہم اصول ہے۔
یہاں ہم دوبارہ شیخ سعدی کی طرف چلتے ہیں۔ بے وقوف شخص بولے یا نہ بولے وہ بے وقوف ہی رہتا ہے۔ وہ اپنی زبان سے نہیں تو اپنے کسی عمل سے خود کو بے وقوف ثابت کر ہی دیتا ہے۔ لیکن اگر ایک عقل مند خاموش رہتا ہے تو وہ اپنے علم ، معرفت ، تجربے اور سوچ کی بلندی سے دوسروں کو محروم رکھتا ہے ۔ اس لئے بولنا یعنی اظہارضروری ہے لیکن شرط وہی ہےکہ سامنے بیٹھے ہوئے انسان کوا نسان سمجھا جائے۔