The reality of fear

خوف کی حقیقت           (The reality of fear)

کہنے کو خوف تین حروف پر مشتمل ایک لفظ ہے لیکن اپنے اثرات کے لحاظ سے بڑی مکروہ چیز ہے۔ اگر ہم اس کی تعریف کو دیکھیں تو بہت سادہ سی ہے ”کسی بیرونی خطرے کے نتیجے میں اندر اُٹھنے والاایک جذبہ۔“ خوف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے جسم اوردل کےبجائے اپنے دماغ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ ایک طرح سے ہم اپنے دماغ میں رہ رہے ہوتے ہیں جس نے ہمیں قیدی بنا کر رکھا ہوتا ہے. وہ ہمارے سامنے واہموں اور خدشات کا ایک ایسا جن کھڑا کر دیتا ہے جس کا وجود ہی نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایسی چیز سے ڈرتے ہیں جس کا وجود ہی نہیں تو اسے ہماری حماقت ہی کہا جائے گا۔ اور واقعی ہم احمق بن جاتے ہیں اور مختلف فوبیاز کا شکار ہو جاتے ہیں۔جس طرح حکومت صوبے بناتی ہے اور ان میں اپنے ناظم یا ذمے دار بنادیتی ہے اسی طرح خوف بھی فوبیاکی حکومت کو جنم دیتا ہے اور پھر اُس کے مختلف صوبے بننا شروع ہو جاتے ہیں۔ ہاتھوں میں لگنے والے جراثیم سے شروع ہونے والا خوف اتنابڑھتا ہے کہ ہم اپنے اردگرد ایک حصار قائم کر لیتے ہیں۔ جتناخوف گہرا ہوتا جاتاہے اتناہی یہ حصار بھی مضبوط ہوتا جاتاہے۔ یہ دیوارجتنی مضبوط ہو تی جاتی ہے ہماری شخصیت اُتنی ہی کمزور ہوتی جاتی ہے۔ پھر ہم رنگوں تک سے ڈرنے لگتے ہیں ، جانوروں اور پودوں تک کونجس یا مقدس سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔۔۔۔۔،ہماری چیزوں کو ہماری اپنی ہی نظر لگنا شروع ہو جاتی ہے، ہماری زندگی میں رونما ہونے والے واقعات نیک شگون ا ور بُرے شگونوں میں تولے جانے لگتے ہیں۔ ۔۔۔ خوف ہمارے اندر بے اعتباری پیدا کر دیتا ہے۔۔۔۔ ہم اپنے اردگرد بسنے والوں کی سوچوں تک میں اُترنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔۔۔۔ہمیں ہر وقت یہی فکر لاحق رہنے لگتی ہے کہ دوسرے ہمارے بارے میں کیا سوچتے ہیں ۔ مگر ہم ایک لمحے کے لیے بھی رک کریہ سوچنے کی کوشش نہیں کرتے کہ ہم دوسروں کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔ کسی نے خوف سے چھٹکارہ پانے کا بڑاخوب صورت طریقہ سمجھایاہے۔ ’’ جب خوف میرے نزدیک آتا ہے تو میں کہتا ہو ں میرے اوپر سے گزر جا اور وہ گزر جاتا ہے۔ جب وہ گزر جاتا ہے تو میں اس کے راستے پر اس کی تلاش میں نکلتا ہوں مگرخوف مجھے کہیں نہیں ملتا بلکہ میں ہر جگہ خود ہی کو پاتا ہوں۔‘‘ کسی نے کیاخوب حقیقت بیان کی ہے، ”جہاں خوف ہوتاہے وہاں خوشیاں نہیں ہوتیں۔“ اس لیے خوشیاں پانے کے لیے خوف کے حصار کو توڑنا بہت ضروری ہے۔ خوف کا بت توڑے بغیر ہمیں اطمینان نہیں مل سکتا۔ اگر ہم ایسا نہیں کرتےتو پھر ہم خوف کے قیدی بن کر چوراہےپہ موجود گداگر سے بھی ڈرنے لگتےہیں کہ یہ ہمیں بدعا نہ دے دے۔پھر ہمیں ہر گداگر، خواجہ سرا اور بھکاریوں کی دعائیں یا بددعائیں عرش پر پہنچتی دکھتی ہیں۔