ہم تھالیچی کے قریب نانگا پربت ویو پوائنٹ پر پہنچے ۔ سب تصویریں بنانے میں مصروف ہو گئے ۔ میں دریا کے پار مٹیالے پہاڑوں سے پرے آسمان کے ساتھ جڑی ہوئی اس برف نگری کے حسن کے سفید موتی سمیٹنے میں مگن تھا۔ یہ نگری آج کافی زیادہ واضح ، نکھری اور دُھلی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔ اس کی چوٹیاں بادلوں کےسفید تاج اوڑھے شہزادیاں دکھتی تھیں ۔ غارت گر شہزادیاں جنھیں پانے کے لیے کتنے دیوانے برف نگر کا حصہ ہو گئے۔ میں اپنے قرطاس ذہن پر کتنے ہی کوہ پیماؤں کی بنتی بگڑتی تصویریں دیکھ رہا تھا۔ 1934 کا سال تھا۔ جرمن کوہ پیما وِلی مرکل اپنے بیس کیمپ میں بیٹھا اپنی تیاریوں کو حتمی شکل دے رہا تھا۔ جرمنی میں ہٹلر کی نازی حکومت فتوحات پہ فتوحات حاصل کر رہی تھی۔ وِلی مرکل اس قاتل پہاڑ کی چوٹیوں پر اپنے وطن کا جھنڈا لہرانے کا خواب لے کر یہاں پہنچا تھا۔ اُ س کی حکومت اور ملک نے اُ س کی خوب مدد کی تھی۔ اُس کی خواہش سے کہیں زیادہ فنڈز اُ س کے حوالے کیے تھے۔اس لیے اُس نے اس مہم کی کامیابی کے لیے خصوصی اقدامات کیے تھے۔ اپنے دور کے ماہر کوہ پیماؤں کی ایک ٹیم بنائی ۔ کوہ پیمائی کی تعلیم کے ماہرین کے تیار شدہ مستند نقشے اکٹھے کیے ۔ علاقے کے چپے چپے سے واقف تجربہ کار پوٹرز اپنی ٹیم میں شامل کیے۔ اپنے وقت کاجدید ترین وائرلیس سسٹم اپنے ساتھ رکھا تاکہ پل پل کی خبر بیس کیمپ تک پہنچائی جا سکے۔ کیمپنگ کا جدید ساز وسامان بھی اُس کے ہمراہ تھا۔ اُس نے اپنے پیش رو یورپین کوہ پیما البرٹ ممری کا بھی خوب مطالعہ کیا تھا جس نے 1895 میں نانگا پربت کو سر کرنے کی کوشش کی تھی مگر نانگا پربت کی برفوں نے اسے اور اس کے ساتھیوں کو واپس آنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ مرکل نے ممری کی غلطیوں سے بہت کچھ سیکھا تھا ۔ دوسال پہلے بھی وہ اِن ہی رستوں پر اِن ہی برف جزیروں تک رسائی کے خواب لےکر نکلا تھا ۔ مگر برفانی طوفانوں نے اُسے ایسا بھٹکایا تھا کہ وہ نانگاپربت تک جانےکے بجائے راکا پوشی کی راہوں پر چل نکلاتھا۔ اپنی ناکامی کے بعدپچھلے دو سال اس نے ہر وہ اقدام اٹھائے تھے جو اسے کامیابی کا دن دکھا سکیں اور یہ کہ اس سے کسی قسم کی کوئی بھول نہ ہو۔ وہ اپنے ساتھیوں کے برزل پاس کی طرف سےتقریباً سو میل کا سفر طے کرتا ہوا آگے بڑھ رہاتھا ۔ برزل پاس پر ابھی تک برف نے ڈیرے جما رکھے تھے اور موسم بھی اُس کے حق میں نہیں تھا ۔ مگر اُسے وقت ضائع کیے بغیر آگے بڑھنا تھا اور اپنے راستے میں آئی تمام رکاوٹوں کو عبور کرنا تھا۔ اُس کا حوصلہ ، جوش اور ولولہ آسمان کی بلندیاں چھو رہا تھا ۔اُس نے رائے کوٹ کے پُل کی طرف سے چلنا شروع کیاتھا تاتوکے گاؤں کے قریب کیمپنگ کی تھی۔سترہ دن چلتے ہوئے وہ برف کے اُسی میدان میں پہنچا تھا جہاں اُس نے دو سال پہلے بیس کیمپ بنایا تھا۔ یہاں سوائے برف کے کچھ نہیں تھا۔ ہوائیں تھیں کہ کوہ پیمائی کے لباس کے اندر بھی جسم کو چھونے سے باز نہیں آتی تھیں جب اُس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہاں کیمپ بنایاتو یہ کسی قصبے سے کم نہیں دکھتا تھا۔اُس کے کیمپ میں اُس کے ساتھی کوہ پیماؤں کےعلاوہ بیسیوں پوٹر اور کارندے تھے۔ مئی کا مہینہ تھا ابھی بھی ٹنوں برف پگھلنےکے وقت کی منتظر تھی۔ ایک چمکتی صبح اُس نے تین آدمیوں پر مشتمل ایک گروپ کو معلومات کے حصول کے لیے آگے بھیجا تھا جس نے واپس آکر اچھی خبریں سنائی تھیں۔ اگلے دن انھوں نے سفر جاری رکھا ۔ کیمپ بناتے ہوئے اور شاندار نظاروں کو فلماتے ہوئے وہ آگے بڑھتے رہے۔ جب وہ میلوں نیچےپھیلی ہوئی وادیوں ، پہاڑوں اور دریاؤں کو دیکھتے تو خود کو بہت خوش قسمت سمجھتے ۔ یہی وہ نظارے تھے جو ان کے سفر کا حاصل تھے۔ ابھی تک سب کچھ ویسے ہی چل رہا تھا جیسا انھوں نے سوچا تھا۔مگر جب وہ چھٹی کیمپنگ کر رہے تھے تو شدید برف باری نے انھیں آن گھیرا ۔ پہاڑوں کے پہاڑ برف کے گرنے لگے۔برفیلی آندھیوں نے ان کے قصبہ نما کیمپ کواپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اس دوران بیس کیمپ سے ان کا وائرلیس رابطہ بھی ختم ہو گیا تھا۔ اب ان کا سفرموسمی حالات کے رحم و کرم پر تھا۔ حالات بہتر ملتے تووہ اپنا سفر جاری رکھتے ۔خراب ہوتے تو انھیں رکنا پڑتا۔ یوں وہ چھٹے کیمپ سے آٹھویں تک کا سفرمکمل کرنے میں کامیاب ہو گئے۔ آٹھویں منزل سے آگے ایک مرتبہ پھر انھیں برفانی طوفانوں نے گھیر لیا۔۔۔۔۔ماورائی طاقتیں انھیں اپنی سرحدوں میں داخل ہونے سے روکنے لگیں ۔۔۔۔برف کی فوج در فوج ان کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئی۔۔۔۔وہ اس برفانی شیش محل میں قید ہو کر رہ گئے۔ برفانی آندھیوں نے اُس کی ٹیم کی جُڑی مالا کو اس طرح بکھیرا کہ کسی کو پتا ہی نہ چلا کہ کون سا موتی کہاں گیا۔ پوٹر کہیں رہ گئے تھے۔۔۔۔سامان کہیں۔۔۔ کسی کا کچھ پتا نہیں تھا ۔۔۔۔ بہت سوں کو برف کھا گئی ۔۔۔۔۔ کئی راستے سےبھٹک گئے تھے۔جب حالات بدتر سے بدترین ہوئے تو سامانِ رسد ختم ہوگیا۔۔۔۔خیمے پوٹروں کے ساتھ ہی برف میں دفن ہوگئے۔ ’’ میرا خیال ہے کہ ہمیں واپس جانا چا ہیے۔‘‘ مرکل کے ایک ساتھی نے مرکل سے کہا۔ ’’ نہیں ہمیں آگے بڑھنا ہے نیچے سے مدد بھی پہنچ جائے گی۔‘‘ مرکل ابھی بھی کسی معجزےکا منتظر تھا۔حالاں کہ وہ اپنا بہت سا سازو سامان اور ساتھی کھو چکا تھا۔ وہ ایک جگہ رک کر کمک کا انتظار کرنے لگے۔۔۔۔مگر چار دن انتظار کے باوجود کچھ نہ بدلا البتہ اُس کا ایک دوست نمونیہ کا شکار ہو کر اس دنیا کو خیر باد کہہ گیا۔ ’’ ہمیں لازمی نیچے چلے جانا چا ہیے۔ کوئی مدد نہیں آنے والی۔‘‘ مرکل کے ساتھی نے مرکل سے کہا۔ اُس کی تجویز پر مرکل نے چار ساتھیوں کو مدد لینے کے لیے نیچے بھیج دیا۔ شاید یہ اُس کی بہت بڑی غلطی تھی۔۔۔شاید اُسے اپنی کامیابی کا یقین ِ کامل تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اور اس کا ایک ساتھی برفانی طوفان میں اپنے خیمے تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ وہ امداد کے منتظر تھے مگر اس انتظار میں ان کے پاس خوراک کے ذخائر ختم ہونے لگے۔۔ حالات قابو سے باہر تھے ۔ طوفان پر طوفان چڑھے آ رہے تھے۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حالت کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے مرکل نے واپس جانے کا فیصلہ کیا۔ مگر اب بہت دیر ہو گئی تھی۔ اُن کے پاس ایک خیمہ تھا اور دو بستر تھے، کھانے پینے کا سامان نہ ہونے کے برابر تھا۔ ۔ چھٹے کیمپ تک پہنچنے کے لیے ابھی مزید دو دن اور دو راتیں درکار تھیں۔ مرکل کی اپنی حالت بھی خراب ہونے لگی ۔ برف نے اُس کی کھال تک ادھیڑ کر رکھ دی تھی ۔ اُس کے ساتھی کی آنکھوں پر برف کا قہر نازل ہو گیاتھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ اپنے خیمے میں بیٹھا حالات کا جائزہ لے رہا تھا۔ مرکل کا ساتھی بے ہوش مُردوں کی طرح پڑا تھا۔ مرکل اپنی غلطیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ برفانی طوفان تھا کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتا تھا۔ اُسے ان ساتھیوں کی بھی فکر تھی جو خوراک لینے نیچے گئے تھے۔اُن ساتھیوں میں سے ایک نے کچھ سالوں بعد اخبار میں ایک انٹرویو میں بتایا ، ’’ ہم جب نیچے سے مدد لے کر اوپر جانے لگے تو ہمیں بدترین طوفان نے گھیر لیا۔ہم آٹھ دن برف کے طوفان میں پھنسے رہے۔ ہمارے ساتھ مدد کے لیے جانے والے ساتھی غائب ہو گئے۔ میں اکیلا زندگی کے لیے ہاتھ پیر مارتے ہوئے خود برف کی نذر ہو گیا۔ وہ تو قسمت اچھی تھی کہ طوفان مجھے نیچے لے آیا۔ ‘‘ اس واقعے کے چار سال بعد پھر ایک مہم نانگا پربت کو سر کرنے گئی ۔ وہ مہم تو سر نہ کر سکی مگر انھوں نے مرکل اور اُس کے ساتھیوں کی لاشیں حاصل کر لیں۔ میں نانگا پربت کو دیکھ رہا تھا اُس کی چوٹیوں پر سے بادل ہٹ گئے تھے۔ میں آسٹرین کو ہ پیما ہرمن بوہل کو اکیلے اوپر چڑھتے دیکھ رہا تھا۔ انیس سو ترپن میں ہرمن بوہل ایک بڑے دل گردے کا کوہ پیما، وِلی مرکل کا خواب پورا کرنے کے لیے بہت اوپر تک پہنچ چکا تھا۔ اس کی ٹیم تتر بتر ہوگئی تھی۔ اس کے پاس آکسیجن کا سامان ختم ہو گیا تھا۔ مگر اُس کا حوصلہ اور پھیپھڑے قائم تھے وہ کچھ کیے بغیر واپس جانے والا نہیں تھا۔ نانگا پر بت کی قوتیں اُسے اوپر آنے سے روک رہی تھیں۔ انھیں کسی انسان کی یہاں تک رسائی پسند نہ تھی۔ نانگا پربت کے برفانی دیو مالائی قلعے کے اندر سے طوفانوں کی بارش ہونے لگی۔ ایک شام ہرمن ایسے طوفان میں پھنسا کہ وہ اپنے کیمپ تک پہنچنے سے قاصر ہوگیا۔ پھر اُس نے ایک چٹان کے اوپر ایک چھوٹی سی برفانی چھت کے نیچے پناہ لی ۔ شام رات میں بدل گئی مگر طوفان نہ تھما۔ وہ اپنے حوصلوں اور ولولوں کے سہارے ساری رات وہیں کھڑا رہا۔ 1895 میں انسان نے نانگا پربت کو مسخر کرنے کی جنگ شروع کی تھی۔ جو ہرمن بوہل نے 13 مئی 1953 کی ایک سرمئی دوپہر میں جیت لی ۔ اس نے نانگا پربت تسخیر کر کے یہ ثابت کر دیا کہ انسان ہی اس دنیا میں مالک حقیقی کا واحد خلیفہ ہے۔ اُس کو اس کی حکومت کا حق حاصل ہے اور کسی کو نہیں چاہے کوئی کتنا ہی طاقت ور کیوں نہ ہو۔ کوہ پیماؤں کی کہانیاں بڑی عجیب و غریب ہوتی ہیں ۔ اس شان دار کامیابی کے چار سال بعد1957 میں بعد یہ بہادر اور عظیم کوہ پیما ہرمن پاکستان میں قراقرم رینج کے کنکورڈیا ریجن میں بلتورو گلیشیر کے قریب موجود ایک چوٹی چوگولیزا سر کرتے ہوئے ایسے برفانی طوفان میں پھنسا کہ زندگی کے راستے اُس سے روٹھ گئے۔ وہ گھر کے راستے کی تلاش میں منوں برف کے نیچے ایسا دبا کہ آج تک اُس کا نام و نشان نہ ملا۔ کہنے کو یہ ایک کہانی ہے ۔گزرے زمانے کی کہانی۔جس میں کوئی چلا اور ہار گیا، کوئی چلااور جیت گیا۔ مگر ہم میں سے کتنے ہیں جونانگا پربت کی چوٹیوں میں موجود ہواؤں کی سرگوشیوں کو سمجھتے ہیں۔ کتنے ہیں جو دیو کی طرح کھڑے اس پہاڑ کے جلال کو محسوس کرتے ہیں۔کتنے ہیں جنھوں نے برف کے پہاڑوں کو کاٹتے ہوئے اپنا سفر جاری رکھا۔ بہت کم ۔۔ ہم سب اپنی زندگی کے شب و روزمیں کھوئے ہوتے ہیں ۔ یہ کوہ پیما کس مٹی کے بنے ہوتے ہیں جو اپنی قبروں کی طرف جاتے راستوں پر دانستہ چلتے ہیں۔ اگر ایک سال موت کی آغوش میں جاتے بچ جاتے ہیں تو اگلے سال اُسی راستے پر چل نکلتے ہیں۔ نانگا پربت کی چوٹی پر برف نہیں ٹھہرتی ۔۔۔یہ ننگی رہتی ہے۔ اسی لیے اس کا نام نانگا پربت ہے۔ مگر میری تو نظر اُس پر نہیں ٹھہر رہی تھی۔ برف پر چمکتی دھوپ میری نظر کو ٹھہرنے نہیں دیتی تھی۔
کچھ کم نہیں ہیں شمع سے دل کی لگن میں ہم
فانوس میں وہ جلتی ہے یاں پیرہن میں ہم
ہیں تفتہ جاں مفارقت گل بدن میں ہم
ایسا نہ ہو کہ آگ لگا دیں چمن میں ہم
عیش دہلوی