زندگی وہ نہیں ہے جو ہم اُسے سمجھتے ہیں۔

آج موسم بہت خوش گوار تھا۔ اگرچہ دھوپ نکلی ہوئی تھی لیکن ٹھنڈی  ہوا نے موسم کو خوش گوار بنایا ہوا تھا  ریلوے اسٹیشن پر ہرکوئی  ریل گاڑی کے آنے کا منتظر تھا۔۔ اس ہجوم میں لڑکوں کی ایک ٹولی بھی شامل تھی جو شاید چھٹیاں منانے  نکلے ہوئے تھے۔ اسٹیشن پر کا فی مصروفیت تھی۔  کہیں  ٹھیلوں  پرموجود چلتی پھرتی دُکانیں  ریل کا انتظار کرنے والوںکو اپنی طرف متوجہ کر رہے تھے توکہیں چھوٹے چھوٹے چائے خانوں میں لوگ چائے سے لطف اندواز  ہو رہے تھے۔ اِکا دُکا لوگ اخبارات اور کتابوں کی دکانوں پر بھی موجود تھے۔ ریل کی آمد کا اعلان ہوا تو ریل میں سوار ہونے والے ریل کی طرف بھاگے۔ لڑکوں کی ٹولی بھی شور کرتی ریل میں اپنی نشستوں کی طرف بڑھی۔ایک بوڑھا شخص ایک جوان لڑکے کے ساتھ ریل گاڑی  میں سوار ہوا اور پھر وہ دونوں اپنی نشستوں پر جا کر بیٹھ گئے۔ اُن کی نشستیں لڑکوں کی اُس ٹولی کے بالکل قریب تھیں۔بوڑھے کا ساتھی لڑکا جو دراصل اُس کا بیٹا تھا اُن لڑکوں کی حرکتیں دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا۔ جب ریل گاڑی چلی تو اُس  نے اپنے والد سے کہا۔’’ بابا دیکھیے! ریل آگے کو چل رہی ہے اور سب چیزیں پیچھے کو چل رہی ہیں۔‘‘ اُس کے باپ نے سر ہلا کر ہاں کا اشارہ کرتے ہوئے اپنے بیٹے کو مسکراہٹ کا تحفہ بھی دیا۔

جیسے ہی ریل تیز چلنا شروع ہوئی اُس لڑکے نے تقریباً چیختے  ہوئے کہا،بابا! درختوں کا رنگ سبز ہے اور وہ پیچھے کو تیزی سے بھاگ  رہے  ہیں۔‘‘ اُس کے باپ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’ جی  میری جان!‘‘ وہ نوجوان بچوں کی طرح ہر چیز کا مشاہدہ کرتا اور بچوں کی طرح  ایک مخصوص قسم کے جوش کا بھی  اظہار کرتا۔

ایک پھل بیچنے والا وہاں سے گزرا تو لڑکے نے تقاضا کیا،’’ بابا! میں نے سیب کھانا ہے۔‘‘ اُس کے باپ  نے اُسے سیب لے کر دیا تو اُس نے کہا،’’ بابا! سیب بہت مزے کا ہے۔ مجھے اس کا رنگ بہت پسند ہے۔‘‘

لڑکوں کی ٹولی اس نوجوان اور بوڑھے کی تمام حرکات کا کافی دیر سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ اُن میں سے ایک  نے اونچی آواز میں پوچھا،’’ بابا جی ! یہ آپ کا بچہ پاگل ہے ، یہ اس طرح کی حرکتیں کیوں کر رہا ہے؟‘‘ بوڑھے نے بہت اطمینان سے جواب دیا۔’’ میرا بیٹا بچپن سے ہی بینائی کی قوت سے محروم تھا۔ کچھ دن پہلے اس کی آنکھوں کا آپریشن ہوا  اور اللہ نے اُسے بینائی کی دولت  عطا فرما دی۔ چونکہ یہ دنیا کو پہلی دفعہ دیکھ رہا ہے اس لیے اس طرح کا رویہ ظاہر کر رہا ہے۔‘‘

جوانوں کی ٹولی یہ بات سُن کر ہکا بکا رہ گئی ۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد انھوں نے بوڑھے سے  معذرت کی اور اُس کے بیٹے سے باتیں شروع کر دیں۔