ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک گاؤں میں ایک برتن ساز رہتا تھا۔جو ہمیشہ بہت خوب صورت برتن بنایا کرتا تھا۔ لوگ بھی اُس کے ہنر اور تخلیقی صلاحیتوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔اُس کا ایک بیٹا تھا ۔وہ اپنے باپ سے اتنا متاثر تھا کہ اُس نے بھی اپنے باپ سے برتن سازی کا ہنر سیکھنا شروع کر دیا۔ بہت تھوڑے ہی عرصے میں اُس نے اپنے باپ بنائے برتنوں کی طرح کے خوب صورت برتن بنانا شروع کر دیے۔ اُس کا باپ اُس کے کام سے بہت خوش تھا اور ہمیشہ اُسے کام کے حوالے سے کوئی نہ کوئی قابلِ توجہ پہلو بتاتا رہتا۔ اُس کے بیٹے نے اپنے باپ کی طرف سے کی جانے والی تنقید پر کبھی بھی ناراضی یا خفگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ اپنے باپ کی باتوں سے سیکھتے ہوئے اپنے کا م کو نکھارتا چلاگیا۔نتیجتاً ایک یساوقت آیا کہ اُس کا کام بہترین سے بہترین ہوتاچلا گیا اور اُس نے اپنے باپ سے کہیں زیادہ بہتر اور خوب صورت برتن بنانا شروع کر دیے۔لوگ بھی اُس کے کام سے متاثر ہوئے اور اُن لوگوں نے بھی اُسی سے برتن خریدنا شروع کر دیے جو اُس کے باپ سے خریدا کرتے تھے۔اگرچہ برتن ساز کے بیٹے نے اپنے باپ سے کہیں زیادہ اچھے برتن بنانا شروع کر دیے تھے اور اُس کی آمدن بھی کافی بڑھ گئی تھی لیکن اس سب کے باوجود باپ اپنے بیٹے کے کام میں کوئی نہ کوئی خامی نکال ہی دیتا تھا۔ ایک دن بیٹے نے اپنے باپ سے کچھ ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ’’ آپ ہمیشہ میرے کام میں کوئی نہ کوئی خامی نکال دیتے ہیں حالاں کہ زیادہ تر لوگ مجھ سے برتن خریدنا پسند کرتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ مجھے آپ سے مزید مشوروں کی ضرورت نہیںکیوں کہ میرا کام تو آپ سے بہت بہتر ہے۔ ‘‘
برتن ساز نے اپنے بیٹے کے اس رویے پر کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا بلکہ خاموشی اختیار کی۔ کچھ ہی ماہ گزرے تھے کہ بیٹے نے محسوس کیا کہ اُس کے گاہگوں میں کمی آگئی ہے اور لوگ اب اُس کے برتنو ں کی اُس طرح تعریف نہیں کرتے جس طرح پہلے کیا کرتے تھے۔ مجبور ہو کر وہ اپنے باپ کے پاس آیا اور انھیں اپنا مسئلہ بتایا۔
برتن ساز نے اپنے بیٹے کی بات سُنی لیکن کوئی جواب نہ دیا ۔ باپ کی خاموشی دیکھ کر اُس کے بیٹے نے پوچھا ۔’’ آپ میری بات کا جواب کیوں نہیں دیتے آپ کو پتا ہے کہ میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے اور میں کس مشکل سے دوچار ہوں۔‘‘ برتن ساز نے جواب دیا،’’ ہاں ! کیونکہ بہت سال پہلے میں بھی اسی مسئلے سے دوچار ہوا تھا۔‘‘ برتن ساز کے بیٹے نے پوچھا۔ ’’ تو پھر آپ نے مجھے کیوں نے بتایا؟‘‘
برتن ساز نے جواب دیا،’’ کیوں کہ آپ اُس وقت یہ سمجھنا ہی نہیں چاہتے تھے۔میں جانتا تھا کہ میں اُتنے خوب صورت برتن نہیں بنا پاتا جتنے کہ آپ بناتے ہیں۔ ممکن ہے کہ کسی وقت میرا مشورہ درست نہ رہا ہو اور نہ ہی ایسا ہے کہ میرے مشورے کی وجہ سے آپ بہتر برتن بنا سکے ہوں لیکن جب میں نے آپ کے برتنوں میں خامیاں ظاہر کیں تو آپ خود اپنے کام سے مطمئن نہ ہوئے اور اپنے کام کو بہتر کرتے چلے گئے۔ اپنے کام کو بہتر بنانے کا جذبہ ہی آپ کی کامیابی کا ضامن بنا۔لیکن جس دن آپ اپنے کام سے مطمئن ہو گئے اور یہ سمجھنا شروع کر دیا کہ اب میرا کام بہترین ہو گیا ہے اُسی دن سے آپ کی ترقی کا سفر تنزلی میں بدلنے لگا۔لوگ ہمیشہ آپ سے بہتری چاہتے ہیں ۔ جب بہتری کا عمل رُک گیا تو لوگوں کی طرف سے ستائش کا عمل بھی رک گیا۔ برتن ساز کے بیٹے نے اپنے باپ کی باتیں غور سے سُننے کے بعد پوچھا، ’’ اب مجھے کیا کرنا چاہیے؟‘‘ برتن ساز نے جواب دیا ۔’’ غیر مطمئن رہنا سیکھیں۔ یہ سوچیں کہ آپ کے لیے موجودہ کام میں بہتری کی گنجائش ہے۔ یہ سوچ آپ کو ہمیشہ بہتر رہنے کی ترغیب دے گی۔‘‘