ایک گاؤں میں ایک لڑکا رہتا تھا جودن کے وقت گھر گھر جا کر چیزیں بیچتا اور شام کو ایک اسکول میں پڑھتا تھا۔
ایک دفعہ وہ ایک جگہ سےگزر رہا تھا کہ اُسے پیاس محسوس ہوئی ۔ اُس نے ارد گرد دیکھا لیکن اُسے کہیں بھی پانی دکھائی نہ دیا ۔ جوں جوں دوپہر بڑھ رہی تھی اُس کی پیاس بھی بڑھتی جاتی تھی۔پھر اُس نے سوچا کہ وہ کسی گھر کے دروازے پر دستک دے اور پانی مانگ کر پیے۔ ابھی اُس نے سوچا ہی تھا کہ کہ ایک دروازہ کھلا اور اُس میں سے ایک لڑکی جوان لڑکی نکلی ۔ اُس لڑکے نے اُس لڑکی سے کہا ۔’’ باجی مجھے پیاس لگی ہے اگر آپ ایک گلاس پانی پلا دیں تو میں آپ کا بہت شکر گزار ہوں گا۔‘‘وہ لڑکی اندر گئی اور جب واپس آئی تو اُس کے ہاتھ میں دودھ سے بھرا گلاس تھا۔اس سے پہلے کہ لڑکا کچھ کہتا وہ لڑکی بولی۔’’ تمھاری حالت دیکھ کراندازہ ہورہا تھا کہ تمھیں پانی کی نہیں دودھ کی ضرورت ہے۔‘‘ لڑکے نے شکریہ ادا کیا اور چلا گیا۔ کئی سال بیت گئے۔۔وہ لڑکی اب ایک بوڑھی عورت ہو چکی تھی۔ وہ کئی مہینوں سے بیمار تھی۔قریبی ڈاکٹروں نے اُ س کی بیماری کا علاج کرنے کی کوشش کی لیکن وہ صحت یاب نہ ہو سکی۔ مجبوراً اُسے شہر کے ایک بڑے ہسپتال میں لے جایا گیا۔
ڈاکٹر ارسلان کو اُس کے علاج کے لیے بُلایا گیا۔ڈاکٹر ارسلان اس بیماری کے مستند ڈاکٹر تھے۔ مریضہ کے معائنے کی غرض سے ڈاکٹر ارسلان کمرے میں داخل ہوئے، معائنہ کیا اور بتایا کہ کچھ ہی دنوں میں آپریشن ہوگا۔ پھر مریضہ کا آپریشن ہو گیا اور ڈاکٹر ارسلان کی ذاتی کوششوں اور محنت کے نتیجے میں وہ عورت صحت یاب ہو گئی۔ اب مریضہ کو یہ فکر کھائے جا رہی تھی کہ ناجانےاُسے ہسپتال کے اخراجات کے لیے کتنی رقم چکانا پڑے گی۔ پھر وہ وقت بھی آگیا جب بل اُس عورت کے حوالے کیا گیا۔ اُس نے لرزتے ہاتھوں بلز کی فائل کھولی تو اُس میں کوئی بل نہیں تھا بلکہ ایک خط موجود تھا ۔جس فقط یہ لکھا گیا تھا۔
’’ یہ بل کئی سال پہلے دودھ کے ایک گلاس کی صورت میں ادا ہو چکا ہے۔‘‘