امیری اور غریبی
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ ایک شہر قصبے میں بہت امیر اور دولت مند شخص رہتا تھا۔ اُس کے پاس بے پناہ مال و اسباب تھا اور وہ بہت پُر آسائش زندگی گزارتا تھا۔ اُس کے پاس اتنی دولت تھی کہ وہ سارے قصبے کو گھر بیٹھے کھِلا سکتا تھا۔اُسے اپنی پُر آسائش زندگی پر بہت گھمنڈ تھا جس کا اظہار وہ اپنے ملنے والوں اور عزیز و اقربا سے کیا کرتا تھا۔
اُس کا بیٹا کچھ دُور شہر میں پڑھتا تھا۔وہ چھٹیوں پر گھر آیا ہوا تھا۔امیر آدمی اپنے بیٹے کو اپنی امارت دکھانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے باپ پر فخر کرے۔لیکن اپنے باپ کے مقابلے میں بیٹا زیادہ منکسر المزاج تھا اور اس طرح کی باتوں کو پسند نہیں کرتاتھا۔اُس کے باپ نے اپنی امارت اور غریبو ں کی حالت دکھانے کے لیےاپنے بیٹے کو پورے قصبے کی سیر کروانے کا منصوبہ بنایا۔قصبے کی سیر کرنے کے بعد جب وہ گھر آئے تو امیر شخص نے فخریہ انداز میں پوچھا۔’’ ہاں بیٹا تو سناؤ ، قصبے کی سیر کیسی رہی؟‘‘ ’’ جی! ابا جان ، بہت مزے کی سیر تھی۔‘‘ بیٹے نے جواب دیا۔ ’’ اچھا تو بتاؤ، آپ نے اس سیر سے کیا سیکھا؟‘‘ امیر شخص نے پوچھا لیکن اُس کا بیٹا خاموش رہا ۔ کچھ دیر کے بعد امیر شخص نے کہا،’’ اب آپ کو احساس ہوا ہوگا کہ غریب لوگ کس مشکل میں زندگی گزارتے ہیں اور ہمارے پاس کتنی آسائشیں ہیں۔‘‘’’ نہیں ابا جان!‘‘ بیٹے نے جواب دیا۔پھر بیٹے نے اپنے بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔’’ ہمارے پاس صرف دو کتے ہیں، اُن کے پاس دس ہیں ۔ہمارے اس ایک تالاب ہے لیکن اُن کے پاس اتنی بڑی ندی ہے۔ ہمارے پاس مہنگی ترین روشنیاں ہیں لیکن اُن کے پاس ان گنت ستارے ہیں ۔ ہمارے پاس زمین کے ایک حصے پر مشتمل گھر ہے لیکن اُن کے پاس حدِ نگاہ تک پھیلے کھیت ہیں۔ہماری خدمت کے لیے کچھ ملازم موجود ہیں جب کہ وہ ایک دوسرے کی خدمت کرتے ہیں ۔ہم نے اپنے گھر کی حفاظت ے لیے اتنی اونچی اونچی دیواریں بنائی ہیں لیکن ایک دوسرے کے ساتھ تعلق بنا کر اپنی حفاظت کرتے ہیں۔ہم اپنے لیے اُن سےخوراک خریدتے ہیں۔ لیکن وہ خود اناج اُگاتے ہیں اور اُن کے گھروں میں اناج کے ذخائر ہیں۔‘‘ امیر آدمی حیرانی سے اپنے بیٹے کو دیکھ رہا تھا جس نے اپنی بات کو حتمی رخ دیتے ہوئے کہا۔ ’’ شکریہ ابا جان کہ آپ نے مجھے غریبی اور امیری کو قریب سے دیکھنے کا موقع دیا اور مجھے احساس دلایا کہ ہم کتنے غریب ہیں۔‘‘