میں ایک پتا ہوں۔ میں کبھی دریا کے کنارے ایک بہت اُونچے درخت کی سب سے اُونچی ٹہنی کے ساتھ لگا ہُوا تھا۔ دریا کے پار دُور تک پہاڑ مجھے صاف نظر آتے تھے۔ بادلوں کی مُجھ سے دوستی تھی اور ہوائیں مجھے جھولا جھلاتی تھیں۔
ایک دن بہت زور کا طوفان آیا۔اگرچہ میں نے ٹہنی کو مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا مگر پھر بھی ساتھ چھوٹ گیا۔ پھر دیر تک تیز ہَوا مجھے اپنے کا ندھوں پر اُٹھائے پھرتی رہی۔ مجھے اپنی جگہ سے اُکھڑ جانے کا افسوس تو تھا مگر ہَوا کی لہروں پر تیرنے کا جو لُطف آرہا تھا وہ بھی کچھ کم نہ تھا، ایسے میں میرے مُنھ سےبے اختیا ر نکل گیا۔ ”اچھا ہے، میں آزاد ہو گیا۔ اب جہاں جی چاہے گا جاؤں گا۔ “
ہوا نے میرے کان میں کہا،”تم اپنی مرضی سے نہیں جاسکتے، تم ہمارے رحم و کرم پر ہو ہم جہا ں چاہیں گے تمھیں لے جائیں گے۔“ ”مجھے منظور ہے مگر بلندیوں کی سیر کافی ہو چکی ہے اب تم مجھے زمین پر اُتار دو۔“میں نے کہا، جواب ملا ”ابھی نہیں تھوڑا انتظار کرو “ اور پھرمجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شوخ اور شریر ہوائیں مجھے گھنٹوں آسمان اور زمین کے درمیان لیے اُڑتی رہیں۔ بلند ٹہنی پر دن رات جھولتے رہنا اور بات تھی اور ہو ا کی لہروں پر پہا ڑوں اور بادلوں کی سیرمیں کچھ اور ہی مزا تھا۔ طوفان تھا کہ تھمنے کا نام ہی نہ لیتا تھا اور ہوائیں تھیں کہ اس خوشی میں پاگل ہوئی جا رہی تھیں۔ میری اپنی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ آ ج میں نے پہلی بار پتا چلا کہ چڑیاں اور پرندے کیوں سارا سارا دن اُڑتے رہتے ہیں۔ وہ ڈالیوں پر ٹک کر کیوں نہیں بیٹھتے۔مجھے بے انتہا لطف آرہا تھا۔ میں نے ہواؤں سے کہا، ”مجھے نیچے اُتار دو میں آرام کر نا چاہتا ہوں۔“شریر ہواؤں نے مجھے دریا کی بہتی ہوئی لہروں پر اُتارنے کی کوشش کی۔ میں چلایا، ”نہیں نہیں یہاں نہیں مجھے کسی باغ میں ننھے مُنے بچوں کے پاس اُتار دو۔“
ہواؤں نے مجھے پھر اُوپر اُٹھا لیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے میں درختوں سے بھی اُونچا چلا گیا۔ بے شمار بلند وبالا درخت طوفان کی وجہ سے ٹوٹ چکے تھے۔ مگر کچھ درخت جو لچک دار تھے وہ اپنی جگہ پر قائم رہے۔ ہواؤں کو بچوں والا با غ تلاش کر نے میں خاصا وقت لگا۔ وہ مجھے مِیلوں اُڑائے پھرتی رہیں پھر ایک بہت خوب صورت باغ نظر آیا۔ جہاں بچے اپنی اجڑی ہوئی کیاریوں اور ٹوٹے ہوئے پودوں کو ٹھیک کر رہے تھے۔”بس یہ جگہ ٹھیک ہے“میں نے کہاتو ہواؤں نے مجھے یہیں اُتار دیا۔
اُترتے وقت ایک دل چسپ واقعہ پیش آیا ابھی میں زمین سے کچھ اُ وپرہی تھا کہ میں نے ایک سفید رنگ کی چھوٹی سی بلی دیکھی جو چکرپہ چکرکاٹ رہی تھی۔ وہ اپنی دُم کو منھ میں پکڑنے کی کوشش کر رہی تھی اور اُس کے چکر تھے کہ ختم ہونے میں نہ آتے تھے۔ اتفاق سے میں اُس کی ناک پرجاکر گرا۔ وہ ایک دم گھبرا گئی۔ چکر کاٹنا بھول گئی اور میرے پیچھے دوڑ پڑی۔ میں اب اُس کے منھ میں تھا۔ ٹپسی!ٹپسی! اُسے ننھی مالکہ نے پکارا اور اپنی گود میں اُٹھاتے ہو ئے کہا ”تم یہ پتا کہا ں سے اُٹھالائی۔“ یہ کہہ کر ننھی لڑکی نے مجھے اُس کے منھ سے نکالا۔ ”کیسا خو ب صورت پتاہے۔ میں اسے اپنی البم میں محفوظ کر لو ں گی،“اُس نے کہا اورمجھے اپنے کمرے میں لے آئی۔
اب میں اپنی ننھی مالکہ کی البم میں سجا ہوا ہوں۔ وہ اکثر اپنی البم کھول کر مجھے دیکھتی ہے اور اپنی سہیلیوں کو دکھاتی ہے۔ میں سوچتا ہوں آزادی کے وہ پہلے دن ہی اچھے تھے۔ اب تو قید کی سی زندگی ہے۔ سونے اور پڑے رہنےکے سوا کوئی کام نہیں۔ یہ بھی ممکن تھا کہ میں دوسرے پتوں کی طرح زمین پر گر کر مٹی میں مل جاتا اور پھر کسی نئے پودے اور درخت کو پھلنے پھولنے میں مدد دیتا۔ یوں ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا۔
بہت خوب
واہ! لاجواب، بہترین-یقین کیجییے تعریف کے لیے الفاظ ہی نہیں مل رہے