اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر معلمہ یا معلم کبھی کچھ ایسا کر رہاہوتا ہے جو درست نہیں ہوتا اور کبھی کچھ ایسا کر رہاہوتا ہے جو غلط نہیں ہوتا۔ چونکہ ایک انسان انسانوں کو سکھا رہا ہوتا ہے اس لئے وہ کچھ درست یا کچھ غلط ضرور کرتا ہے ۔یہ نہیں ہوسکتا کہ وہ سب کچھ غلط کر رہا ہویا سب کچھ درست کر رہاہو۔
’’ تمام اساتذہ کچھ وقت کے لئے کچھ اچھا کرتے ہیں اورتمام اچھے اساتذہ کچھ وقت کے لئے کچھ غلط بھی کرتے ہیں۔ ان کے درمیان یہ فرق درست اور غلط کے تناسب کا نہیں بلکہ اس کاہے کہ جووہ کر رہے ہوتے ہیں اور انہیں اس کے اثرات سے آگہی ہے یا نہیں اور وہ اپنی اس آگہی کو اپنے متعلمین کے ساتھ بانٹنے کے لئے تیار ہیں یا نہیں۔‘‘ (Smith, 1995: 590)
یوں ضروری یہ ہوا کہ ہم اپنے آئندہ کے لائحہ عمل میں بانٹنے کے اس عمل کو اہمیت دیں۔ اس طرح ہمیں پتہ چلے گا کہ بحیثیت ایک استادہمارے کس عمل کا کیا نتیجہ نکلتا ہے، یہیں سےہمارے اندر غور و فکر کرنے کی سوچ پیدا ہو گی اور ہم ایک روش یا ایک طریقہ اپنائیں گے جسے ہم غور و فکر کے اظہارکا طریقہ کہتے ہیں۔ اسی طریقے سے تدریسی عمل میں ایک طریقہ یا روش کو اہمیت مل جاتی ہے اور وہ ہے غور وفکر کے اظہار کے ذریعے سیکھنا۔
‘‘ غور و فکر کے اظہار پر مبنی سوچ کے حامل اساتذہ بننے کے لئے تین قسم کے روئیے ضروری ہیں:
۱۔ ذہن کی کشادگی ۲۔ ذمہ داری ۳۔ کھلے دل کا اظہار
(J. Dewey, A Handbook for Reflective Teaching)
سچن (Schon (1987) نے اسے غور وفکر کے نتیجے میں ہونے والے اظہار پر مبنی عمل یعنی “Reflective practice” کا نام دیا۔ اسے سمجھنے کے لئے اُس بچے کا مشاہدہ ضروری ہے جو چلتے ہوئے کسی چیز سے ٹکراتا ہے اور پھر ہمیشہ اس سے بچ کر چلتا ہے۔ اس کے اس عمل کے نتیجے میں اس کے دماغ میں سوچ کا ایک ایسا عمل شروع ہوجاتا ہے جو اسے اس جیسی باقی چیزوں سے بھی بچنے پر آمادہ کرتی ہے۔ یہی کچھ ایک استاد کے ساتھ ہونا چاہیے ۔ گویا کہ سوچ اور سوچ کے اظہار اور اس کے نتیجے میں اپنے عمل میں تبدیلی لانا ۔ ایک اچھے معلم کے لئے پہلا اہم سبق ہے۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ ایک معلم یامعلمہ کو غورو فکر اور اس کے اظہار کے کئی مواقع ملتے ہیں۔ کبھی منصوبہ سازی کرتے ہوئے، کبھی حکمتِ عملی کا چناؤ کرتے ہوئے اور کبھی تجزیہ کرتے ہوئے۔ گویا کہ اُ سے اپنے ادارے میں جگہ جگہ، لمحہ لمحہ غور وفکر ، اس کے تجزیہ اور اس سے نتیجہ سازی کے مواقع ملتے ہیں۔
یہ عمل جماعت یا ادارے تک محدود نہیں رہتا بلکہ اُس کی زندگی کا کو ئی عمل اور کوئی گوشہ ا س کی پہنچ سے بچ نہیں پاتا۔ اور وہ ایک سوچ بچار کرنے والا انسان بن جاتا ہے۔